عقلمند اور مہذب مائیں جس طرح خود صبح سویرے بیدار ہوتی ہیں اسی طرح اپنے بچوں کو بھی صبح سویرے نماز کے وقت بیدار کرتی ہیں پھر خود نماز کی تیاری کرتی ہیں۔ جو بچے نماز کے لائق ہوں انہیں نماز اور جو نماز کے لائق نہیں ان کو ذکر و تسبیح کرواتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ پریشان ہیں کہ اولاد بات نہیں مان رہی‘ اپنی من مانی کرتی ہے۔ کوئی بھی بات کریں اس کا الٹا جواب دیتی ہے۔ ہم نے اس اولاد کو زندگی کی ہر آسائش فراہم کی ہے۔ اپنا ’’خون جگر‘‘ ان پر لگایا۔ اپنا جسم ’’کاٹ‘‘ کر ان کو کھلایا مگر یہ پھر بھی ہمارے بڑھاپے کا ’’آسرا‘‘ نہیں بن رہی۔ کیوں؟
اس بات کا جواب ہر شخص کو خود بھی پتہ ہے کہ انہوں نے زیادہ لاڈپیار دے کر اپنی اولاد کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہوتا ہے مگر پھر بھی بتا دیتے ہیں کہ دنیا میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں ہرروز کوئی نہ کوئی سائنسی چیز مارکیٹ میں آکر ہمارے ذہن کے دریچوں کو ہلارہی ہے۔ ہر کسی ملک سے کوئی نہ کوئی چیز اس ملک کی مارکیٹ کا حصہ بن رہی ہے چاہے وہ الیکٹرانکس کی ہو یا جیولری‘ کپڑوں کے ڈیزائن ہوں یا کھانے کی چیزیں‘ فرنیچر کے ڈیزائن ہوں یا بچوں کے کھلونے۔ ہر ملک دوسرے کو ’’معاشی‘‘ مات دینا چاہتا ہے اور ہر انسان اپنی اولاد کیلئے نت نئے کھلونے خریدتا ہے تاکہ اس کی اولاد ان سے دل بہلا سکے۔ بات ہورہی تھی بچوں کے کھلونوں کی تو لوگوں کی نفسیات ہی ایسی ہیں کہ اپنے بچوں کیلئے نت نئے کھلونے خریدتے ہیں‘ بنا سوچے سمجھے کہ ان کھلونوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد ہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آج کل جو کھلونے بچوں کیلئے بنائے جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے لباس میں گڑیاں ملتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر شرم آجاتی ہے اس کے علاوہ کسی نہ کسی شکل میں جنگ کے متعلق بنانے والے کھلونے بھی شامل ہیں جن میں ٹینک‘ میزائل اور کھلونا نما گنیں شامل ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی گولیاں آنکھیں ضائع کرسکتی ہیں۔ ان سب اشیاء کا نقصان ہمارے بچوں کو ہورہا ہے۔ اکثر مائیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ نت نئے فیشن اور میوزک سے بھرے یہ کھلونے ہماری نسلوں کو کھوکھلا کررہے ہیں یہ کھلونے خرید کر اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آج کی ماں اپنے بچوں کو نماز‘ قرآن نہیں سکھاتی بلکہ ڈراموں کے ٹائم بتاتی ہے اور ڈراموں کے نام یاد کرواتی ہے گانوں سے اسے لوریاں دیتی ہے۔
گھر میں فون پر ’’جھوٹ‘‘ بولنے کا عمل ’’معمولی‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔مصروف رکھنے کیلئے لیپ ٹاپ‘ آئی فون لے کر دے دئیے جاتے ہیں حتی کہ ان کے بچوں کی زندگی پر اثرات بد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جانتے رہتے ہیں مگر پھر جدید ماؤں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔گھر کے اندر اور باہر ان کیلئے ہر جدید ’’آسائش‘‘ موجود ہے تو پھر یہ گلے شکوے کرنے کا فائدہ؟
ہم اپنے بچوں کو کس دوراہے پر لے جارہے ہیں کیا کبھی کسی نے اس بات کو سوچا ہے بعد میں لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کی ’’تربیت‘‘ بہت اچھی کی ہے پھر پتہ نہیں کسی کی نظر لگ گئی ہے‘ ان کو کیا ہوگیا ہے تو جناب اس کی وجہ بھی آپ ’’خود‘‘ ہیں۔جب ہم اپنے بچوں کو ’’جدید فیشن‘‘ کے کھلونے دیں گے‘ آئی فون دیں گے‘ ان کے سامنے جھوٹ بولیں گے‘ اپنے والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات کریں گے۔ ان کا کہنا نہیں مانیں گے اپنے والدین کا کام نہیں کریں گے تو کل کوجب ان کی اپنی اولادیں ان کے ساتھ یہ کریں گی تو کوئی غلط نہ ہوگا۔
اب بھی وقت ہے ہم اپنے آپ کو اور اپنی دنیا و آخرت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ جو کوئی جانے انجانے میں غلطی ہوگئی ہوگی تو اپنے والدین سے معافی مانگنی ہوگی۔ اگر والدین ہم سے خوش ہوگئے تو ان لوگوں کی اولاد خود ہی ٹھیک ہوجائے گی اور ویسے بھی والدین تو گھر میں ’’جنت‘‘ ہوتے ہیں۔ ورنہ ہماری اپنی پالیسیوں کی وجہ سے کہیں والدین’’بچوں‘‘ کے غلام نہ بن جائیں۔
بچوں کے بارے میں سنہری قواعد
عقلمند اور مہذب مائیں جس طرح خود صبح سویرے بیدار ہوتی ہیں اسی طرح اپنے بچوں کو بھی صبح سویرے نماز کے وقت بیدار کرتی ہیں پھر خود نماز کی تیاری کرتی ہیں۔ جو بچے نماز کے لائق ہوں انہیں نماز اور جو نماز کے لائق نہیں ان کو ذکر و تسبیح کرواتی ہیں۔ نماز کے بعد خدائے پاک کے دربار میں ایمان پر قائم رہنے اور دینی احکام پر چلنے کی‘ علم حاصل کرنے کی‘ رزق میں برکت اور عمر میں برکت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ اس کے بعد سب بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے کلمہ پڑھانے کے بعد حسب ذیل باتیں ان سے کہلواتی ہیں۔
.۔1۔ ہم اپنے ماں باپ‘ استادوں اور بزرگوں کی عزت کریں گے اور ان کی فرماں برداری کریں گے۔2۔ ہم اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ پیارو محبت سے رہیں گے‘ ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے۔3۔ ہم اپنے بھائی بہنوں اور ساتھیوں سے کبھی بھی لڑائی جھگڑا نہیں کریں گے۔4۔ ہم اپنے رشتے دار اور متعلقین سے محبت سے اور عزت واکرام سے پیش آئیں گے۔5۔ ہم اپنی زبان سے کبھی بھی کوئی بری بات یا برا کلمہ نہیں بولیں گے۔6۔ ہم سب مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھیں گے۔7۔ ہم اندھے لنگڑے اپاہجوں کی مدد کریں گے۔8۔ ہم کبھی تکبر اور غرور نہیں کریں گے۔ کسی کو برا لگے ایسابول نہیں بولیں گے۔ کسی کا دل نہیں دکھائیں گے۔9۔ ہم ہمیشہ سچ بولیں گے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کسی کو وعدہ دے کر اس کے خلاف نہیں کریں گے اور اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کریں گے۔10۔ ہم کسی کی غیبت نہیں کریں گے‘ کسی کےپیٹھ پیچھے اس کی برائی نہیں کریں گے۔ کبھی گالیاں نہیں دیں گے‘ کبھی کسی کو نہیں ستائیں گے۔11۔ ہم کبھی چوری نہیں کریں گے کبھی برا کام نہیں کریں گے۔12۔ ہم غریبوں پر صدقہ خیرات کریں گے‘ مصیبت زدہ کی مدد کریں گے‘ پان چھالیہ‘ سگریٹ کی عادت نہ ڈالیں گے۔ اللہ اور اس کے پیارے حضور نبی اکرم ﷺ کے احکامات پر چلیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں